Posts

اولیاء اللہ

Image
کہا گیا اس دور میں اللہ والے ناپید ہیں مگر جواب ملا کسی دور میں قحط الرجال نہیں رہا۔ بزرگان دین ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔فرمان رسول  ﷺ  کے مطابق ہر دور میں امت میں تین سو چھپن ولی موجود ہوتے ہیں۔جب ان کی پہچان پوچھی گئی تو بتایا گیاوہ لوگ دنیا سے کنارہ کش ہیں اور آخرت کی طرف متوجہ ہیں اور خدا کی مرضی و قدرت کے ساتھ راضی ہیں۔ حض رت حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے  حضرت داؤد علیہ السلام سے فرمایا : اے داؤد ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے، ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے، پس اگر تم اپنی چاہت کو میری چاہت کے تابع کردو تو میں تمہاری چاہت  کے لیے بھی کافی ہوجاؤں گا ،  اور بہرحال ہوگا تو وہی جو میں چاہوں گا، اور اگر تمہاری چاہت میری مرضی کے خلاف ہو تو میں تمہیں تمہاری چاہت میں تھکا دوں گا   اور ہوگا تو پھر بھی وہی جو میری چاہت ہے۔ جو لوگ اپنی چاہت کو اللہ تعالی کی چاہت کے تابع کر لیتے ہیں ان ہی کو اللہ کا دوست کہا جا تا ہے ۔ ان کی پہچان   مشکل ہے نہ یہ لوگ نایاب ہیں۔  1۔  اگر نبی فرمائیں کہ شکلِ انسانی میں آنے والا فرشتہ ہے جو تمہیں تمہارا دین سمجھانے اور بتانے آیا

دو سجدوں کے بیج

Image
اللھم اغفرلی واھدنی وارزقنی وعافنی  اے اللہ مجھے بخش مجھے ہدایت دے مجھے روزیاں دے اور عافیت عنایت فرما ۔   ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کر رہے ہیں کہ ”نبی ﷺ دو سجدوں کے بیچ میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے  ”اللَّهمَّ اغْفِرْ لي“ کا معنی ہے کہ: میری پردہ پوشی کر اور اس کے ساتھ ساتھ مواخذہ سے بھی در گزر کر۔ وارْحَمْنِي“ یعنی مجھے اپنی جناب سے رحمت عنایت فرما جس میں گناہ کی ستر پوشی ہو اور اس پر مواخذہ نہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا و آخرت کی خیر مجھے عنایت فرما۔ وعافِني“ یعنی مجھے دین کے معاملے میں برائیوں اور شبہات سے اور بدن کے معاملےمیں امراض اور بیماریوں سے اور عقل کے سلسلے میں بے وقوفي اور پاگل پن سے سلامتی اور عافیت عطا فرما۔ واهْدِني“ یعنی مجھے ہدایت دے، ہدایت کی دو قسمیں ہیں: اول: وہ ہدایت جس میں راہِ حق اور صحیح راستہ دکھلا دیا جائے اور اس کی طرف رہنمائی کر دی جائے۔ اس قسم کی ہدایت مسلمان اور کافر دونوں ہی کو ملتی ہے وارزقنی“ یعنی مجھے رزق عطا فرما جو اس دنیا میں مجھے تیری مخلوق سے بے نیاز کر دے اور آخرت میں مجھے وسیع رزق عنایت فرما جیسا کہ تو نے اپنے ان بندوں کے لیے تیار کر رکھا ہے جن

منافق

Image
اس نے رسول اللہ ﷺ  کا زمانہ پایا نماز پڑہتا تھا روزے رکھتا تھا بیت الرضوان میں شامل تھا بیمار ہوا تورسول اللہ ﷺ اس کی عیادت کو تشریف لے گئے کفن کے لیے رسول اللہ ﷺ کی قمیض عطا ہوئی رسول اللہ ﷺ  نے اس کا جنازہ پڑھایا لیکن اس کی حیات کے دن سے آج تک مسلمان متفق ہیں کہ وہ منافقین کا سردار تھا کیوں  شعار اسلام پورے کرنے کے باوجود وہ اتباع رسول اللہ ﷺ  سے عاری تھا  

کریم کی تعریف

Image
حضرت امیرالمومنین  علی ابن ابو طالب  سے جنگ کے وقت ایک کافر دشمن نے  کیا  (یا علی آپ اپنی تلوار مجھے دے دو)  حضرت نے تلوار اسے دے دی تو اس کافر نے امیر سے کہا  اے علی یا تو آپ بہت بہادر ہیں یا سخت نادان کہ عین جنگ میں اپنی تلوار دشمن کو دے دی۔ حضرت امیر نے جواب دیا  بے شک تو جان کا دشمن ہے مگر تیرا لہجہ سائل کا تھا۔اور سائل کو محروم رکھنا کریموں کا دستور نہیں ہے۔  اصل یہ ہے کہ حضرت امیر کے پیغمبر و رسول  ﷺ  حضرت امیر سے بڑھ کر کریم تھے۔ ان کے کرم کے واقعات لا محدود ہیں۔    رسول اللہ ﷺ  کے رب کائنات کے سب سے بڑے کریم ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا ظلم  واحد و لا شریک رب کا شرک ہے مگر جب ایک مشرک  و بد بخت توبہ قوت پا کر اس کے حضور حاضر ہوتا ہے تو وہ کریم رب اسے بھی معاف کر دیتا ہے۔  اے مسلمان تیرا رب کریم ہے، معاف کرنے والا اور در گذر کرنے والا ہے، وہ مہربان ہے اور در گذر پر ہمہ وقت آمادہ ہے۔ کبھی غور تو کر کبھی اس سخی سے امید تو رکھ۔ کبھی اس کی طرف معافی کا میسج تو بھیج۔   

صحبت کی اہمیت

Image
عقل مند انسان وہ نہیں جو اچھے گھر میں پیدا ہوا بلکہ عقل مند وہ ہے۔ جس نے اپنی ذات کی اہمیت کو پہچانا۔ یہ پہچان ادراک سے حاصل ہوتی ہے۔ ادراک صحبت کا شاخسانہ ہوتی ہے۔ علم، استاد، مدرسہ و یونیورسٹی سب صحبت ہی کی تعریف میں شامل ہیں۔  نیک و بد بختی کا ابتدائی بیج ایک زبردست ہاتھ اپنی قدرت سے بوتا ہے۔بد بخت ہو گا تو نبی کامل  ﷺ کا زمانہ پا کر بھی ابو جہل بن جائے گا اور نیک بخت ہو گاسیکڑوں برس کی مسافت پر بھی ہدائت و رشدکے گل اگا کر گلستان پیدا کر دے گا۔ البتہ جب بیج اگ آتا ہے تو اسے صحبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیغمبر اور کتاب، عالم و شیخ  صحبت کو رونق بخشنے کے اسباب بنتے ہیں۔ جب مسلمان بالغ عمری کو یابدبخت امر ربی سے ہدائت پا جاتا ہے تو اس پر اپنی صحبت کو خالص کرنے کا فریضہ واجب ہو جاتا ہے۔ کتاب کی تلاوت،  اسوہ رسول  ﷺ کا مطالعہ،  صاحبان علم و عمل سے شناسائی، پانچ بار اپنے خالق کے حضور سجدہ ریزی سب  صحبت کو پاکیزہ رکھنے کے حیلے ہیں۔  جب کہا گیا   (سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاو)  تو یہ حقیقت بیان کر دی گئی کہ یہ راہ غیر مانوس ہے، شفاف ایسی کہ قدم پھسلتا ہے،  محال گھاٹیاں ہیں، قدم قدم پر فلسفی، دہریے او

توبہ کی حقیقت

Image
واعظ نے سامعین سے باآواز بلند، مکرر اور سہ مکرر توبہ کرائی اور خوشخبری دی تمھاری توبہ قبول ہو گئی ہے۔ چھوٹے سے قصبے کے واعظ ہر صبح توبہ کراتے اور نوید سناتے کہ  روز گذشتہ کی لغزشیں معاف ہو چکیں۔حرکت لسانی بنیادی عمل ہے جب اس بنیاد پر عمل سے کچھ تعمیر کیا جائے۔بے شک یہ تعمیر تھوڑی ہی ہو مگر روزانہ اینٹوں کا خواہ ایک ردا ہی لگایا جائے تو امید کی جا سکتی ہے ایک دن عمارت کی شکل بن جائے گی۔ حرکت لسانی کو معمولی نہیں جاننا چاہیے مگر اس پر بھروسہ عمل ہی سے ہوگا۔ توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ توبہ کرنے والے کی صفات ذمیمہ حمیدہ میں بدل جائیں۔توبہ اندر سے دوبارہ تعمیر کرتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے توبہ کے عمل کے بعد ایک نیا انسان بن جاتا ہے۔ یہی توبہ کی حقیقت ہے اور یہی توبہ سے مطلوب ہے۔ایمان تقلیدی اور حرکت لسانی جڑ کی مانند ہیں۔ جڑ ہی سے تنا بنتا ہے اور ثمر آور ہوتا ہے۔ ہر اصل کی ابتدا ریا ہی سے ہوا کرتی ہے۔ عشق مجازی ہی عشق حقیقی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ بے توقیری کی کوکھ سے توقیر جنم لیا کرتی ہے۔ تنقید ہی قائل کیا کرتی ہے۔ البتہ یہ یقین کتاب و سنت سے حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالی رحیم و کریم وغفار ہے۔ اور کائن

پاکی کی معراج

Image
پاکی حاصل کرنے کے لیے انسان غسل کرتا ہے۔ مزید اطمینان کے لیے غسل سے پہلے وضو کرتا ہے۔ مزید نکھار کے لیے غسل کے بعد عطر اور خوشبو کا استعمال کرتا ہے۔ اپنی آرائش کے لیے اجلا لباس زیب تن کرتا ہے۔ ان سارے اعمال کے بعد وہ خود کو ایک پاکیزہ تر مقام پر محسوس کرتا ہے۔  توبہ کی ابتداء خیالات کی پاکیزگی سے ہوتی ہے۔ مزید اطمینان کے لیے اللہ تعالی کے واجب کردہ فرائض کو ادا کیا جاتا ہے  مزید نکھار کے لیے اللہ کے کنبے کے حقوق ادا کیے جاتے ہیں مگر آرائش مکمل تب ہی ہوتی ہے جب اپنے دشمنوں کو معاف نہیں بلکہ خوش کر دیا جائے۔ یہ ایسا عمل ہے جس کے انجام میں ملنے والی خوشی کا ہر صاحب علم مسلمان متمنی ہوتا ہے۔ خواجہ ابو اسحق اسفرانی کے مطابق یہ وہ مقام ہے جہان اللہ تعالی مسلمان کو اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ جس کو اللہ تعالی اپنا دوست بنا لے گویا اس نے مقصد حیات سے بھی بڑھ کر حاصل کر لیا۔ اس مقام تک رسائی کا زینہ وہ کلمات ہیں جو ہمارے رہبر و رہنماء ہمارے ہادی و رسول  حضرت محمد  ﷺ نے  سکھائے ہیں۔ ان  الفاظ کے معانی کو سمجھنے اور تفہیم کو زیر عمل لانا ہر مسلمان کے بس میں ہے شرط صرف اتنی ہے کہ انسان کامیاب ہونے کی ت