صحبت کی اہمیت



عقل مند انسان وہ نہیں جو اچھے گھر میں پیدا ہوا بلکہ عقل مند وہ ہے۔ جس نے اپنی ذات کی اہمیت کو پہچانا۔ یہ پہچان ادراک سے حاصل ہوتی ہے۔ ادراک صحبت کا شاخسانہ ہوتی ہے۔ علم، استاد، مدرسہ و یونیورسٹی سب صحبت ہی کی تعریف میں شامل ہیں۔ 

نیک و بد بختی کا ابتدائی بیج ایک زبردست ہاتھ اپنی قدرت سے بوتا ہے۔بد بخت ہو گا تو نبی کامل  ﷺ کا زمانہ پا کر بھی ابو جہل بن جائے گا اور نیک بخت ہو گاسیکڑوں برس کی مسافت پر بھی ہدائت و رشدکے گل اگا کر گلستان پیدا کر دے گا۔ البتہ جب بیج اگ آتا ہے تو اسے صحبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیغمبر اور کتاب، عالم و شیخ  صحبت کو رونق بخشنے کے اسباب بنتے ہیں۔ جب مسلمان بالغ عمری کو یابدبخت امر ربی سے ہدائت پا جاتا ہے تو اس پر اپنی صحبت کو خالص کرنے کا فریضہ واجب ہو جاتا ہے۔ کتاب کی تلاوت،  اسوہ رسول  ﷺ کا مطالعہ،  صاحبان علم و عمل سے شناسائی، پانچ بار اپنے خالق کے حضور سجدہ ریزی سب  صحبت کو پاکیزہ رکھنے کے حیلے ہیں۔ 

جب کہا گیا   (سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاو)  تو یہ حقیقت بیان کر دی گئی کہ یہ راہ غیر مانوس ہے، شفاف ایسی کہ قدم پھسلتا ہے،  محال گھاٹیاں ہیں، قدم قدم پر فلسفی، دہریے اور اباحتی خوش لباس اور مرصع کلام سے لیس اچکے موجود ہیں۔ اسی لیے جماعت کو اہم و ضروری بتایا گیا۔ کیسی عمدہ مثال ہے کہ ریوڑ سے بچھڑ جانے والی بھیڑ کو بھیڑیا اچک لے جاتا ہے۔ آج کے دور میں تقلید پر دشنام فیشن میں شامل ہو چکا ہے مگر یاد رہے قلعے میں رہائش پذیر گو قلعہ دار کی اتباع میں ہو تا ہے مگر وہ دشمن کے خوف سے مامون ہوتا ہے۔ صحبت کی حقیقت طاقت ور قلعہ دار کی امان میں آ جانے کا نام ہے۔ قوی ترین قلعہ دار خود رب محمد ﷺ  ہے۔ ایمان و اعمال اس قلعہ دار کی اتباع کا اظہار ہیں۔


Comments

Popular posts from this blog

مسلمانوں کی اقسام

دو سجدوں کے بیج